قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت آدم علیہ السلام

کی اولاد کے نام سکھائے?“تفسیر ابن کثیر:131'130/1‘تفسیر سورة البقرة ‘ آیت:33-31
زیادہ صحیح رائے یہ ہے کہ انہیں چھوٹی بڑی اشیا اور ان کے افعال و حرکات کے نام سکھائے گئے? جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے?
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ? نے فرمایا: ”قیامت کے دن مومن جمع ہوکر کہیں گے کہ اگر ہم کسی سے اللہ کے سامنے سفارش کروائیں (تو اس مشکل مرحلہ سے نجات مل جائے)‘ چنانچہ وہ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: آپ تمام انسانوں کے جدامجد ہیں، آپ کو اللہ تعالی? نے اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا اور اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کروایا اور آپ کو تمام اشیا کے نام سکھائے‘ اپنے رب کے سامنے ہماری سفارش فرمائیے تاکہ ہمیں اس مرحلے سے نجات نصیب ہو?“ صحیح البخاری‘ التفسیر‘ باب قول اللہ تعالی? ”وعلم آدم الا?سماءکلھا“ حدیث:4476 و صحیح مسلم‘ الایمان‘ باب ا?دنی ا?ھل الجنة منزلة فیھا‘ حدیث:193
اللہ تعالی? کے فرمان: ”پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ?“ کی تفسیر میں حضرت حسن بصری ? بیان کرتے ہیں: ”جب اللہ تعالی? نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ رفرمایا تو فرشتوں نے کہا: ”اللہ تعالی? جو مخلوق بھی پیدا فرمائے گا، ہمارے پاس اس سے زیادہ علم ہوگا‘ چنانچہ ان کا امتحان لیاگیا‘ اسی لیے اللہ تعالی? نے فرمایا: ”اگر تم سچے ہو?“
اللہ تعالی? کے فرمان:” فرشتوں نے کہا: اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے? تو ہی پورے علم و حکمت والا ہے?“ کا مطلب یہ ہے: ”اے اللہ! تو پاک ہے? کوئی بھی تجھ سے علم حاصل نہیں کرسکتا سوائے اس کے جو تونے انہیں سکھایا?“ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
”وہ اس کے علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے مگر جو وہ (خود دینا) چاہے?“
(البقرة: 255/2)
اسی طرح درج ذیل فرمان ال?ہی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر اور پوشیدہ امور کا علم اللہ تعالی? ہی کو ہے:
”اللہ تعالی? نے (آدم کو) حکم دیا کہ تم ان کو ان (چیزوں) کے نام بتاؤ‘ جب انہوں (آدم) نے اُن کے نام بتائے تو اللہ تعالی? نے (فرشتوں سے) فرمایا: کیوں! میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو (سب) مجھ کو معلوم ہے?“ (البقرة: 33/2)
ایک قول کے مطابق ”میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو“ سے مراد فرشتوں کا یہ کہنا ہے: ”کیا تو زمین میں وہ مخلوق پیدا کرے گا جس اس میں فساد کرے?“ اور ”جو تم چھپاتے تھے?“ اس سے مراد ابلیس کا اپنے دل میں تکبر کا جذبہ رکھنا اور آدم علیہ السلام سے افضل ہونے کا خیال ہے? حضرت سعید بن جبیر، مجاہد، سدی، ضحاک، ثوری اور ابن جریر رحمة اللہ علیہم کی یہی رائے ہے?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت آدم علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.