قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

یک زبان ہوکر یوسف کو گناہ کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا? آپ کے صاف انکار پر انہوں نے خودکشی کی دھمکی دی? جب آپ اس سے بھی متاثر نہ ہوئے تو ہاتھ زخمی کر لیے کہ یہ خالی دھمکی نہیں? جس طرح ہم نے ہاتھ کاٹے ہیں‘ تمہارے مزید انکار کی صورت میں خودکشی بھی کرسکتی ہیں اور ہمارا خون آپ کے سر ہوگا? جب اس مرحلہ پر بھی یوسف علیہ السلام ثابت قدم رہے تو انہوں نے کہا کہ یوسف علیہ السلام انسان نہیں? اگر انسان ہوتا تو ہمارے ایک اشارے پر اس طرح چلا آتا جس طرح لوہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے? یقینا یہ انسانی صورت میں فرشتہ ہے جو انسانی جذبات و خواہشات سے مبرا ہے? واللہ اعلم?
حضرت انس? سے مروی معراج کی حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ? نے فرمایا: ”میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ انہیں آدھا حسن دیا گیا ہے?“ صحیح مسلم‘ الایمان‘ باب الاسراءبرسول اللہ? الی السموات و فرض الصلوات‘ حدیث: 162
امام سُہَیلی? اور دیگر علماءنے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام سے آدھا حسن دیا گیا تھا? کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی? نے اپنے دست مبارک سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی خاص روح ڈالی? لہ?ذا آپ انسانی حسن و جمال کا اعلی? ترین نمونہ تھے? اس لیے جنتی جب جنت میں داخل ہوں گے توانہیں حضرت آدم علیہ السلام کا سا قد و قامت اور حسن حاصل ہوگا? حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن حضرت آدم علیہ السلام سے نصف تھا اور ان دونوں ہستیوں کے درمیان ان دونوں سے زیادہ حسین کوئی انسان پیدا نہیں ہوا? اسی طرح حضرت حواءعلیھاالسلام کے بعد کوئی عورت ان سے اس قدر مشابہ نہیں تھی جس قدر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ علیھاالسلام ان سے مشابہ تھیں?
اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے کہا: ”یہی ہیں جن کے بارے میں تم مجھے طعنے دے رہی تھیں?“ پھر اس نے آپ کی کامل و اکمل پاک دامنی کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ”میں نے ہر چند اس سے اپنا مطلب حاصل کرنا چاہا، لیکن یہ بال بال بچا رہا? اور جو کچھ میں اس سے کہہ رہی ہوں، اگر یہ نہ کرے گا تو یقینا قید کردیا جائے گا اور بے شک یہ بہت ہی بے عزت ہوگا?“
ان سب عورتوں نے آپ کو اپنی مالکہ کی فرماں برداری کرنے کی تلقین کی تھی، لیکن آپ نے سختی سے انکار کردیا کیونکہ آپ انبیائے کرام علیہم السلام کی آل میں سے تھے? اس وقت آپ نے رب العالمین سے دعا کی اور فرمایا: ”اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں، اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے? اگر تونے ان کا فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور بالکل نادانوں سے جا ملوں گا?“ یعنی اگر تونے مجھے میری ذات کے سپرد کردیا (اور اپنی حفاظت اُٹھالی) تو میری ذات تو کمزور ہے، میں تو اپنی جان کے لیے بھی کسی نقصان کا مالک نہیں، مگر جو اللہ کی مرضی ہے? میں کمزور ہوں الایہ کہ تو مجھے قوت بخشے اور میری حفاظت فرمائے اور تیری توفیق میرے شامل حال ہو? اس لیے اللہ تعالی? نے فرمایا: ”اس کے رب نے اس کی دعا قبول کرلی اور ان عورتوں کے داؤ پیچ اس سے پھیر دیے، یقینا وہ سننے والا جاننے والا ہے?“

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.