قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

اسی طرح یاد کرتے رہیں گے تو یاتو بیمار ہوجائیں گے یا جان ہی دے دیں گے? انہوں نے کہا کہ
میں تو اپنے غم و اندوہ کا اظہار اللہ سے کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں
جانتے? بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی
رحمت سے ناامید نہ ہونا? بلاشبہ اللہ کی رحمت سے بے ایمان لوگ ناامید ہوا کرتے ہیں?“
(یوسف: 87-80/12)
جب وہ لوگ بنیامین کو حضرت یوسف علیہ السلام سے چھڑانے میں ناکام ہوگئے تو تنہائی میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے? سب سے بڑے بھائی روبیل (روبن) نے کہا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کی قسم لے کر پختہ اقرار لیا ہے؟“ یعنی یہ وعدہ لیا ہے کہ واپسی میں بنیامین کو ضرور ساتھ لاؤ گے? اب تم عہد شکنی کے مرتکب ہوچکے ہو اور جس طرح تم نے پہلے یوسف علیہ السلام کے بارے میں کوتاہی کا ارتکاب کیا تھا، اب اس کے بارے میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہو? ”پس میں تو اس سرزمین سے نہ جاؤں گا بلکہ یہیں ٹھہرا رہوں گا حتی? کہ والد صاحب خود مجھے واپس آنے کی اجازت دے دیں یا اللہ تعالی? میرے اس معاملے کا فیصلہ کردے (کہ میں کسی طرح اپنے بھائی کو اپنے والد کے پاس لے جا سکوں?) وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے?“ ”تم سب والد صاحب کی خدمت میں واپس جاؤ اور کہو کہ اباجی! آپ کے صاحب زادے نے چوری کی?“ یعنی انہیں وہ بات بتاؤ جو ظاہری طور پر تمہارے مشاہدے میں آئی ہے اور کہو: ”آپ اس شہر کے لوگوں سے دریافت فرما لیں جہاں ہم تھے اور اس قافلے سے بھی پوچھ لیں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں?“ یعنی ہم نے آپ کو بھائی سے چوری کی غلطی سرزد ہونے کی جو خبر سنائی ہے، وہ مصر میں مشہور ہوچکی ہے، وہ ان قافلے والوں کو بھی معلوم ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے? ”اور یقینا ہم بالکل سچے ہیں?“
? حضرت یعقوب علیہ السلام کا رنج و الم: جب بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور بنیامین کی داستان سنائی تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے پرانے زخم بھی تازہ ہوگئے اور مسلسل رونے کی وجہ سے آپ کی بینائی جاتی رہی‘ لیکن آپ نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور اپنے رب سے پر امید رہتے ہوئے فرمایا: ”(ایسا ہوا نہیں) بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنالی‘ پس اب صبر ہی بہتر ہے?“ یعنی تمہارا بیان غلط ہے? بنیامین سے چوری کا جرم سرزد نہیں ہوا? یہ اس کی عادت نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے ایک بات بنالی ہے?
ابن اسحاق? اور بعض دوسرے علماءنے فرمایا: ”بنیامین کے بارے میں ان کی کوتاہی، یوسف علیہ السلام سے بدسلوکی کا نتیجہ تھی? ?فَھُوَ کَظِی±مµ? ”وہ غم کو دبائے ہوئے تھے?“ کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے رونے سے اجتناب کیا تھا? جو شخص رو لیتا ہے اس کا رنج و غم ہلکا ہو جاتا ہے اور جو شخص غم میں اندر ہی اندر گھلتا رہے تو شدت غم کی وجہ سے آنسو خشک ہوجاتے ہیں? یہ غم کی انتہائی شدید کیفیت ہے? اسی لیے یعقوب علیہ السلام نے یہ بات فرمائی? کسی بزرگ کا قول ہے: ”گناہ کی سزا بعض اوقات اس طرح بھی ملتی ہے کہ ایک اور گناہ سرزد ہوجائے?“

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.