قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یوسف علیہ السلام

علیہ السلام نے شاہ مصر سے اجازت طلب کی کہ اپنے والد کی میت کو لے جا کر خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ دفن کریں? اس نے اجازت دے دی? آپ کے ساتھ مصر کے سردار اور بزرگ بھی روانہ ہوئے?
انہوں نے حبرون پہنچ کر آپ کو اس غار میں دفن کیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عفرون بن صخر حیثی سے خریدا تھا? پھر واپس آگئے? یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف سے والد کی وفات پر تعزیت کی اور غم کا اظہار کیا? آپ نے ان کی عزت افزائی کی اور انہیں اعزاز و اکرام سے اپنے ساتھ لائے? چنانچہ وہ مصر ہی میں مقیم رہے?
پھر حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے وصیت کی کہ جب وہ لوگ مصر سے نکلیں تو ان کی میت کو ساتھ لے جا کر آبائے کرام کے ساتھ دفن کریں‘ چنانچہ انہوں نے آپ کی میت کو حنوط کر کے تابوت میں رکھ لیا? بعد میں جب موسی? علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکلے تو آپ کی میت کو ساتھ لے گئے اور آپ کو آپ کے آبائے کرام کے قریب دفن کیا، جیسے کہ آئندہ بیان ہوگا?
اہل کتاب کے قول کے مطابق یوسف علیہ السلام ایک سو دس سال کی عمر میں فوت ہوئے?

نتائج و فوائد.... عبرتیں و حکمتیں

? ایمان باللہ کے ثمرات و فوائد: حضرت یوسف علیہ السلام کے مبارک قصے سے ہمیں ایمان باللہ کے متعدد فوائد و ثمرات ملتے ہیں? اگر بندے کا ایمان اللہ تعالی? پر کامل و مستحکم ہو اور اسے یقین کامل ہو کہ گنج بخش وہی ذات الہ?ی ہے‘ مصائب و مشکلات میں دستگیر و مشکل کشا بھی وہی ہے اور رنج و الم کو دور کرنے والا غوث اعظم بھی وہی ہے‘ نفع و نقصان کا داتا اور رزق و اولاد میں برکت و کمی کا مالک و مختار بھی وہی ہے، تو بندے کو اس مستقیم و محکم ایمان کی بدولت دو عظیم نعمتیں نصیب ہوتی ہیں? رنج و غم اور مصائب پر صبر جمیل کی توفیق نصیب ہوتی ہے جبکہ نعمتوں کے حصول پر شکر جزیل کی توفیق ملتی ہے? یہ دونوں چیزیں حضرت یوسف و یعقوب علیہماالسلام کی زندگی میں ہر وقت اور ہر موقع پر واضح نظر آتی ہیں? حضرت یعقوب علیہ السلام کا ایمان باللہ ہمارے لیے بہترین اسوہ ہے? آپ کا لاڈلا، چہیتا اور محبوب بیٹا یوسف جدا ہوتا ہے تو جزع فزع کرنے کی بجائے صبر و شکر کی اعلی? مثال بن جاتے ہیں? دھوکے باز بیٹوں کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”پس صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے?“
(یوسف: 18/12)
اسی صبر و شکر کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے رحمت دو عالم? فرماتے ہیں:
”مومن کے معاملے پر تعجب ہے? اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے? مومن کے سوا کسی شخص کو یہ سعادت حاصل نہیں? اگر اسے خوشی نصیب ہو تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے? اگر اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے?“ صحیح مسلم‘ الزھد‘ باب المو?من ا?مرہ کلہ خیر‘ حدیث: 2999

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت یوسف علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.