دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

بیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

وہ جو ابھی اس راہگزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں

Posted on May 28, 2011