غمِ زندگی تیرا شکریہ

غم زندگی تیرا شکریہ تیرے فیض ہی سے یہ حال ہے
وہی صبح و شام کی الجھنیں وہی رات دن کا وبال ہے

نا چمن میں بوئے سماں رہی نا ہی رنگ لالہ و گل رہا
تو خفا خفا سا ہے واقعی کے یہ صرف میرا خیال ہے

میں غموں سے ہوں جو یوں مطمئن تو برا نا مانیے تو میں کہوں
تیرے حسن کا نہیں فیض کچھ میری عاشقی کا کمال ہے

ہے یہ آگ کیسے لگی ہوئی میرے دل کو آج ہوا ہے کیا
جو ہے غم تو ہے غم آرزو اگر ہے تو فکر وصال ہے

کوئی کاش مجھ کو بتا سکے رہ و رسم عشق کی الجھنیں
وہ کہے تو بات پتے کی ہے میں کہوں تو خام خیال ہے

یہ بتا کے کیا ہے تجھے ہوا پائے عشق سرور غمزدہ
نا وہ مستیاں نا وہ شوخیاں نا وہ حال ہے نا وہ چال ہے . . .

Posted on Feb 16, 2011