پھر یہ زمانہ جیت گیا

وہ راتیں موسم سَرما کی
وہ باتیں موسم سَرما کی

وہ تیرے ساتھ ہی سب کچھ تھا
وہ سَرما بھی اب بیت گیا

وہ ڈر ڈر کے جب ملتے تھے
وہ مل مل کے جب ڈرتے تھے

وہ ملنے کے قسمیں کھا کھا کر
ہم جیتے تھے ہم مرتے تھے

اب یاد دلائے کون تمہیں
یہ سال بھی آخر بیت گیا

نا تم آئے نا خط کوئی لکھا
پورا کیا نا وعدہ کوئی

اور اپنا بھی کوئی دوش نہیں
یہ بازی بھی جگ جیت گیا

وہ سرد ہوائیں اب بھی ہیں
رنگین فضائیں اب بھی ہیں

وہ بھیگے بھیگے پانی کی
پر شور ادائیں اب بھی ہیں

میں اب بھی ادھر کو جاتا ہوں
اور دل اپنا سلگاتا ہوں

جب تم نہیں ہوتے ساتھ میرے
ہوتے ہیں کھلے ہاتھ میرے

پر شور صدائیں پوچھتی ہیں
وہ سرد ہوائیں پوچھتی ہیں

وہ کہاں گیا ساتھی تیرا
کیا پھر یہ زمانہ جیت گیا

Posted on May 05, 2011