یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
اَدُھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے

یہ ختم وصال کا لمحہ ہے ، رائِگاں نا سمجھ
کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے

کچھ اور دیر نا جھڑتا اُداسیوں کا شجر
کسے خبر تیرے سائے کون بیٹھا ہے

یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کر ملتا ہے

میں کس طرح تجھے دیکھوں ، نظر جھجھکتی ہے
تیرا بدن ہے کہ یہ آئینوں کا دریا ہے

Posted on Feb 16, 2011