ہم کہیں گے حال دل، اور آپ فرمائیں گے کیا

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل، اور آپ فرمائیں گے کیا
حضرت ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرش راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا
آج وہاں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی
یہ جنون عشق کے اندر چھٹ جائیں گے کیا
خانہ زاد زلف ہیں، زنجیر بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتار وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیوں
ہے اب اس معمورے میں قحط غم الفت اسد
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں، کھائیں گے کیا؟

Posted on May 17, 2011