راحتِ جاں سے تو یہ دِل کا وبال اچھا ہے

راحتِ جاں سے تو یہ دِل کا وبال اچھا ہے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا، ترا حال اچھا ہے

ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے

ترے آنےسے کوئی ہوش رہے یا نہ رہے
اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے

یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جائے کوئی
اسے دے دے کوئی اچھی سی مثال اچھا ہے

دائیں رُخسار پہ آتش کی چمک وجہِ جمال
بائیں رُخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے

سخت غُصہ میں بھی یہ سوچ کے ہنس دیتا ہوں
یہ وہی شخص ہے جو وقتِ وصال اچھا ہے

آو پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی، وہی مچھلی، وہی جال اچھا ہے

چھوڑیے اتنی دلیلوں کی ضرورت کیا ہے
ہم ہی گاہک ہیں بُرے، آپ کا مال اچھا ہے

کوئی دینار نہ درہم نہ ریال اچھا ہے
جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے

کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیم
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے

Posted on May 20, 2011