بھول جاؤ کے اپنے ماضی میں رکھا کیا ہے

بھول جاؤ کے اپنے ماضی میں رکھا کیا ہے

بھول جاؤ کے اپنے ماضی میں رکھا کیا ہے
یہی نا !
دو چار ملاقاتیں
ادھورے شکوے
ادھوری باتیں
اور اداس شامیں
چند ٹوٹی ہوئی
فون کی بے ربط کالیں
اور کیا ہے اپنے ماضی میں
بھول جاؤ . . .

Posted on Feb 16, 2011