قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت داؤد علیہ السلام

خوانی کریں?“ اللہ تعالی? نے آپ کو بے مثال عمدہ آواز عطا فرمائی تھی? جب آپ ترنم کے ساتھ زبور کی تلاوت کرتے تو اڑتے ہوئے پرندے رک کر آپ کی نغمگی اور تسبیح خوانی کا ساتھ دیتے? اسی طرح صبح شام تسبیح خوانی کے وقت پہاڑوں کی گونج بھی آپ کا ساتھ دیتی تھی?
امام اوزاعی? فرماتے ہیں کہ حضرت داود علیہ السلام کو اتنی پیاری آواز دی گئی تھی کہ جنگلی جانور اور پرندے آپ کی تلاوت سن کر آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے? حضرت وہب کہتے ہیں کہ جو بھی آپ کی آواز سنتا وہ جھومنے لگتا? آپ ایسی سریلی آواز سے زبور کی تلاوت کرتے تھے کہ کسی کان نے ایسی آواز کبھی نہ سنی تھی? آپ کی پرترنم آواز سن کر جن و انس‘ پرندے اور مویشی مگن ہوجاتے تھے?
ام المو?منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنُہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ? نے ابو موس?ی اشعری? کی تلاوت کی آواز سنی تو فرمایا: ”اِسے داود علیہ السلام کی نغمگی میں سے حصہ ملا ہے?“
مسند ا?حمد: 167/6
اس حسن صوت کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ خاصیت بھی حاصل تھی کہ بہت تیزی سے تلاوت کرسکتے تھے? رسول اللہ? نے فرمایا: ”داود علیہ السلام پر تلاوت آسان کردی گئی تھی? آپ گھوڑے پر کاٹھی ڈالنے کا حکم دیتے اور اور گھوڑا تیار ہونے سے پہلے قرآن (زبور) پڑھ لیتے اور آپ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے?“
صحیح البخاری‘ التفسیر‘ باب قولہ ?وآتینا داود زبورا?‘ حدیث: 4713
یہ تلاوت تدبر اور خشوع کے ساتھ ہوتی تھی? اور ”قرآن“ سے مراد ”زبور“ ہے جو آپ پر نازل ہوئی تھی? اللہ تعالی? کا ارشاد ہے: ”اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی?“ (النسائ: 163/4‘ بنی اسرائیل: 55/17) زبور ماہِ رمضان میں نازل ہوئی تھی? اس میں وعظ اور حکمت کی باتیں تھیں?

معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ

دیگر نعمتوں کے علاوہ آپ کو اللہ تعالی? نے جھگڑوں کے فیصلے کرنے کی خصوصی صلاحیت سے بھی نوازا تھا? اللہ تعالی? نے فرمایا: ” ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کردیا تھا اور اسے حکمت دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا (سکھایا تھا)?“ (ص?: 20)
حضرت ابن عباس? سے روایت ہے کہ دو آدمی اپنا مقدمہ لے کر داود علیہ السلام کے پاس آئے? مدعی کا کہنا تھا کہ اس نے مجھ سے گائے چھین لی ہے? مدعا علیہ نے انکار کیا? آپ نے ان کا فیصلہ رات تک مو?خر کردیا? جب رات ہوئی تو اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ مدعی کو قتل کردیا جائے? صبح ہوئی تو حضرت داود علیہ السلام نے مدعی سے کہا: ”اللہ تعالی? نے میری طرف وحی کی ہے کہ تجھے قتل کردوں، اس لیے میں تجھے ضرور قتل کروں گا? اب سچ سچ بتا دو کہ حقیقت کیا ہے؟“ اس نے کہا: ”اللہ کے نبی! میں اپنے دعوی? میں بالکل سچا ہوں? لیکن میں نے اس کے باپ کو قتل کیا تھا?“ اس شخص کو داود علیہ السلام نے سزائے موت کا حکم سنایا? اس واقعہ سے بنی اسرائیل کی نظر میں حضرت داود علیہ السلام کا مقام بہت بلند ہوگیا اور انہوں نے بہت اچھی طرح آپ کی اطاعت قبول کی? اسی لیے اللہ تعالی? نے فرمایا ہے: ”ہم نے اس کی

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت داؤد علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.