قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت داؤد علیہ السلام

بھی بے حد ضروری ہے? کیونکہ فوجی جس قدر اعلی? جسمانی اور روحانی تربیت کے حامل ہوں گے اسی قدر بہتر نتائج برآمد ہوں گے?
اللہ تعالی? نے طالوت کے فوجیوں کی تربیت کے پیش نظر راستے میں آنے والے دریا سے پانی پینے سے منع فرما دیا? اس میں انہیں صبر و تحمل، قوت برداشت اور اطاعت امیر کا خوگر بنانے کی تربیت دی گئی ہے? دراصل لشکر اسلام کو یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہوجائے? نیز یہ جنگی حکمت بھی اس حکم میں پنہاں تھی کہ اسلامی فوج دشمن پر اچانک اور زور دار حملہ کرے? اگر وہ سیر ہو کر پانی پینے لگ جاتے اور جانوروں کو بھی جی بھر کر پینے کے لیے چھوڑ دیتے تو یہ خطرہ تھا کہ دشمن ان کی آمد کا پتہ چلا کر مستعد ہوجاتا یا ان کی پہنچ سے دور نکل جاتا? یہ خدشہ بھی تھا کہ اسلامی فوج سخت پیاس کے بعد جی بھر کر پانی پیے گی تو ان پر سستی اور کسل مندی غالب آجائے گی جو کہ میدان جنگ میں نہایت مضر ہے، لہ?ذا آج بھی کامیاب جرنیل اپنی فوجیوں کو جدید اسلحہ سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں? نیز اچانک حملے کی تدبیر موجودہ دور کے جنگی پلان کا اہم ترین جزو بن چکی ہے?
? صبر و ثبات اور اطاعت امیر کامیابی کی ضمانت: اس قصے سے ہمیں صبر و ثبات اور اطاعت امیر کا درس ملتا ہے? اطاعت امیر ہرحال میں ضروری ہے، تاہم میدان جنگ میں اس کی اہمیت و ضرورت دو چند ہوجاتی ہے? جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ فوج میدان جنگ کی سختیوں، مشکلات اور مصائب کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے کی تربیت سے لیس ہو، نیز اطاعت امیر ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو?
ان دو بنیادی صفات کی حامل فوج کو اللہ تعالی? کی نصرت و حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ کافروں پر غالب آجاتی ہے حضرت طالوت کی اکثر فوج نے نافرمانی کرتے ہوئے نہر سے جی بھر کر پانی پی لیا، اس لیے وہ سستی کا شکار ہوگئے اور دشمن کے مقابلے سے جی چرانے لگے? اس وقت اہل ایمان نے ان الفاظ میں فوج کی ڈھارس بندھائی اور اپنے رب سے صبر و ثبات کی التجا کرنے لگے:
”جو لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں‘ بولے: بسا اوقات چھوٹی سی جماعت بھی بڑی اور
بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہے? اللہ تعالی? صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے?“
(البقرة: 249/2)
لہ?ذا انہوں نے اس اظہار کے بعد کہ کامیابی کثرت تعداد اور اسلحہ کی فراوانی پر منحصر نہیں بلکہ اللہ تعالی? کی مشیت اور اس کی مدد و حمایت پر منحصر ہے، اپنے رب سے یوں دعا کی:
”اے ہمارے رب! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما?“
(البقرة: 250/2)
چنانچہ وہ قلیل ہونے کے باوجود کامیاب و کامران ہوئے? اسی طرح جنگ بدر میں مسلمانوں نے صبر و ثبات اور اطاعت امیر کی اعلی? مثال پیش کرتے ہوئے اپنے رب کی نصرت و حمایت سے، قلیل تعداد اور بے سر و سامانی کے باوجود، فتح پائی جبکہ کثرت تعداد اور اسلحہ کی فراوانی کے باوجود جنگ حنین میں، ابتدا میں شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ صبر و ثبات کی قلت اور اطاعت امیر کے جذبے میں لغزش پائی گئی تھی? لہ?ذا

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت داؤد علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.