قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت عیسی علیہ السلام

ہے? ”دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے?“ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں دوسرے انسانوں کی طرح کھانا کھانے کی ضرورت ہوتی تھی، لہ?ذا وہ الہ? نہیں ہوسکتے? ان کے باطل عقیدے کی تردید سورہ? مائدہ کی آخری آیات سے بھی ہوتی ہے? ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور (اس وقت کو یاد کرو) جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسی? ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا
کہ اللہ کے سوا مجھے اورمیری والدہ کو معبود مقرر کرلو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے یہ میرے لائق نہ تھا
کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں? اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا
(کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اُسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اُسے نہیں
جانتا? بیشک تو علام الغیوب ہے? میں نے اُن سے کچھ نہیں کہا سوائے اس کے جس کا تونے مجھے
حکم دیا‘ وہ یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں
رہا اُن (کے حالات) کی خبر رکھتا رہا? جب تونے مجھے دنیا سے اُٹھا لیا تو تو اُن کا نگران تھا اور تو ہر
چیز سے خبردار ہے? اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر بخش دے تو (تیری
مہربانی ہے) بیشک تو غالب (اور) حکمت والا ہے?“ (المائدة: 118-116/5)
قیامت کے دن اس سوال جواب کا مقصد حضرت عیسی? علیہ السلام کی عزت افزائی اور ان لوگوں کے اعمال اکارت ہونے کا اعلان ہے جنہوں نے محبت اور عقیدت کے نام پر حضرت عیسی? علیہ السلام کی عبادت کی تھی، انہیں ان اعمال پر کسی ثواب کی امید نہیں رکھنی چاہیے?
اللہ تعالی? جب عیسی? علیہ السلام سے سوال کریں گے تو اللہ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ آپ نے ایسی کوئی بات نہیں کی? لیکن جھوٹی باتیں گھڑ کر آپ کے ذمے لگانے والوں کو زجر و توبیخ کے لیے اللہ تعالی? فرمائے گا:
”اے عیسی? ابن مریم! کیا تونے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی معبود قرار دے لو؟ عیسی? (علیہ السلام) عرض کریں گے: ”میں تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں کہ تیرا کوئی شریک ہو? مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں?“ کیونکہ یہ صرف تیرا حق ہے کہ اپنی عبادت کا حکم دے? ”اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کاعلم ہے? تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے، اس کو نہیں جانتا? تمام غیب جاننے والا تو ہی ہے?“
اس انداز کلام میں اللہ تعالی? کا انتہائی ادب و احترام ملحوظ رکھا گیا ہے? ”میں نے ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تونے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا?“ اور وہ یہ تھا: ”کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے? میں ان پر گواہ رہا، جب تک اُن میں رہا پھر جب تونے مجھ کو اُٹھا لیا?“ یعنی جب لوگوں نے مجھے صلیب پر چڑھانے اور شہید کرنے کا ارادہ کیا تو تونے مجھ پر رحمت فرماتے ہوئے آسمانوں پر زندہ اُٹھا کر اُن سے بچا لیا? کسی اور کی صورت مجھ جیسی بنادی اور لوگوں نے اس پر اپنا غصہ نکال لیا? یہ سب کچھ ہوا ”تو تو ہی ان پر نگران رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے?“
پھر وہ تمام معاملات کا مختار اللہ ہی کو قرار دیتے ہوئے اور عیسائیت کا خود ساختہ مذہب اختیار کرنے والوں سے اظہار براءت فرماتے ہوئے ارشاد فرمائیں گے: ”اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت عیسی علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.