قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت ہود علیہ السلام

بتوں کی پوجا اور آباءو اجداد کی اندھی تقلید ان کے خوفناک انجام کا سبب بنی اور یہ دستگیر ان کی کوئی مدد نہ کرسکے?
ارشاد باری تعالی? ہے:
”پس قرب الہ?ی کے حصول کے لیے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں
نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوگئے، (بلکہ دراصل) یہ ان کا محض جھوٹ اور
(بالکل) بہتان تھا? (الاحقاف: 28/46)
? بادِ صرصر اور نحوست کے ایام: حضرت ہود علیہ السلام نے بتوں کی پجاری قوم کو ہر طرح کے دلائل و براہین سے توحید کی دعوت دی اور انہیں ایک اللہ پروردگار کی عبادت پر یکسو کرنے کی کوشش کی مگر بتوں کی پوجا میں غرق، آباءو اجداد کے رسوم و رواج کی تقلید میں اندھی قوم نے طرح طرح کے دلائل دیکھنے سننے کے باوجود آپ کو جواب دیا:
”اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی دلیل تو لایا نہیں اور ہم صرف تمہارے کہنے پر اپنے معبودوں کو
چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں بلکہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے کسی
معبودنے تجھے آسیب لگا دیا ہے?“ (ھود: 53/11)
جب دلائل و براہین سے حق واضح کردیا گیا، حق تبلیغ پورا ہوگیا، کفار کا کفر و شرک اور ظلم و عناد تمام حدود پھلانگ گیا تو سنت اللہ کے پورے ہونے کا وقت آگیا‘ اللہ تعالی? نے فرمایا:
”ہم نے ان پر تیز و تند مسلسل چلنے والی ہوا ایک پیہم منحوس دن میں بھیج دی، جو لوگوں کو اٹھا اٹھا کر
دے پٹختی تھی گویا کہ وہ جڑ سے کٹے ہوئے کھجور کے تنے تھے? پس کیسی رہی میری سزا اور میرا
ڈرانا؟“ (القمر: 20,19/54)
اس طرح اللہ تعالی? نے اس سرکش، مغرور، بد دماغ اور مشرک قوم کو باد صر صر سے تباہ و برباد کردیا? یہ یکایک تند و تیز، یخ بستہ اور شور مچاتی ہوئی ہوا تھی جو ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی? یہ ہوا ان کافروں کو ان کے مضبوط قلعوں اور محلات سے اٹھاتی اور زمین پر پٹخ دیتی جس سے ان کے سر دھڑ سے جدا ہوجاتے اور وہ لمبے تڑنگے، کھجور کے تنوں کی طرح زمین پر گر پڑے?
? تلخی کا جواب نرمی سے، بدتہذیبی کا جواب اخلاق سے دینا: حضرت ہود علیہ السلام کے قصے سے داعیان توحید و رسالت کو یہ درس ملتا ہے کہ انہیں اس مقدس فرض کی ادائیگی میں ہمیشہ نرم خو اور شیریں بیان ہونا چاہیے? تلخیوں کا جواب خندہ پیشانی سے دینا چاہیے? بے ہودہ گوئی اور استہزا کا جواب اخلاق و آداب سے دینا چاہیے تاکہ دعوت حق منکرین کے دلوں میں پیوست ہوجائے? نیز اس مشن کو بے لوث ہو کر ادا کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کو مخاطب کرکے فرمایا تھا:
”اے میری قوم! میں تم سے اس کی کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر اس کے ذمے ہے جس نے مجھے
پیدا کیا ہے? کیا پھر تم عقل سے کام نہیں لیتے؟“ (ھود: 51/11)
آپ کے اس اسلوب خطاب سے یہ بھی درس ملتا ہے کہ جنہیں دعوت حق دی جائے انہیں اچھے

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت ہود علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.