قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

کے لیے وہ ذرہ برابر بھی مفید نہیں ہوگی?
ان سب باتوں کے جواب میں فرعون بولا: ”میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں، جو خود دیکھ رہا ہوں?“ یعنی میں اپنی سمجھ کے مطابق اسی بات کو درست سمجھتا ہوں? ”اور میں تمہیں بھلائی کی راہ ہی بتا رہا ہوں?“
حقیقت میں فرعون کی یہ دونوں باتیں جھوٹ تھیں کیونکہ وہ اپنے دل میں یہ جانتا اور سمجھتا تھا کہ حضرت موسی? علیہ السلام سچے ہیں اور وہ جو کچھ لائے ہیں وہ یقینا اللہ کی طرف سے ہے لیکن کفر، تکبر، ظلم اور زیادتی کی بنیاد پر اس کے برعکس خیالات کا اظہار کرتا تھا?
? فرعون کی ایک بودی دلیل: ارشاد باری تعالی? ہے:
”موسی? نے جواب دیا: یہ تو تجھے علم ہو چکا ہے کہ آسمان اور زمین کے پروردگار ہی نے یہ معجزے
دکھانے اور سمجھانے کو نازل فرمائے ہیں? اے فرعون! میں تو سمجھ رہا ہوں کہ تو تباہ و برباد اور ہلاک
کیا گیا ہے? آخر فرعون نے پختہ ارادہ کر لیا کہ انہیں زمین ہی سے اکھیڑ دے تو ہم نے خود اسے اور
اس کے تمام ساتھیوں کو غرق کردیا? اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اس سرزمین پر تم
رہو سہو، ہاں جب آخرت کا وعدہ آئے گا، ہم تم سب کو سمیٹ اور لپیٹ کر لے آئیں گے?“
(بنی اسرائیل: 104-102/17)
دوسرے مقام پر فرمایا:
”پس جب ان کے پاس آنکھیں کھول دینے والے ہمارے معجزے پہنچے تو وہ کہنے لگے: یہ تو صریح
جادو ہے? اور انہوں نے صرف ظلم و تکبر کی بنا پر انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے?
پس دیکھ لیجیے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟“ (النمل: 14'13/27)
اس نے جو کہا تھا: ”اور میں تمہیں بھلائی کی راہ بتلا رہا ہوں?“ تو یہ بھی جھوٹ تھا? وہ خود ہدایت پر نہیں تھا بلکہ حماقت، ضلالت اور توہمات میں گھرا ہوا تھا? پہلے وہ بتوں کا پجاری تھا? پھر اپنی گمراہ اور جاہل قوم کو بلایا تو اس نے بھی اس کے کفر و کذب کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی پیروی کی اور اسے رب مان لیا? جیسا کہ ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا کہ اے قوم! کیا مصر کی حکومت میرے ہاتھ میں نہیں ہے اور یہ
نہریں جو میرے (محلوں کے) نیچے سے بہہ رہی ہیں (میری نہیں ہیں؟) کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں
اس شخص سے کہیں بہتر ہوں جو کچھ عزت نہیں رکھتا اور صاف گفتگو بھی نہیں کر سکتا? اس پر سونے
کے کنگن کیوں نہیں اتارے گئے یا (یہ ہوتا کہ) فرشتے جمع ہو کر اس کے ساتھ آتے? غرض اس نے
اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی? بیشک وہ نافرمان لوگ تھے? جب
انہوں نے ہم کو خفا کیا تو ہم نے اُن سے انتقام لیا اور اُن سب کو ڈبو چھوڑا اور اُن کو گئے گزرے
کردیا اور پچھلوں کے لیے (عبرتناک) مثال بنا دیا?“ (الزخرف: 56-51/43)

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.