قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

پھر اس نے ان کے غلط عقائد کی تردید کرکے انہیں ان کے خوفناک انجام سے ڈراتے ہوئے کہا:
”اور اے قوم! میرا کیا (حال) ہے کہ میں تو تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے (دوزخ کی)
آگ کی طرف بلاتے ہو? تم مجھے اس لیے بلاتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اُس چیز کو اس کا
شریک ٹھہراؤں جس کا مجھے کچھ بھی علم نہیں اور میں تم کو (اِلہ?) غالب (اور) بخشنے والے کی طرف
بلاتا ہوں? سچ تو یہ ہے کہ جن کی طرف تم مجھے بلاتے ہو وہ دنیا اور آخرت میں پکارے جانے کے
قابل نہیں اور ہم کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں? جو بات میں تم
سے کہتا ہوں تم اُسے آگے چل کر یاد کرو گے اور میں اپنا کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ بیشک اللہ بندوں
کو دیکھنے والا ہے? غرض اللہ نے موسی? کو ان کی تدبیروں کی برائیوں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں
کو برے عذاب نے آگھیرا یعنی آتش (جہنم) کہ صبح و شام اُس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور
جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو?“
(المو?من: 46-41/40)
وہ انہیں اسی اللہ کی عبادت کی دعوت دے رہا تھا جو آسمان و زمین کا مالک ہے اور جس کی شان ?کُن± فَیَکُو±ن? ہے اور وہ لوگ اسے فرعون کی عبادت کی طرف بلاتے تھے جو جاہل، گمراہ اور ملعون تھا، اس لیے اس نے ان کی تردید کرتے ہوئے کہا: ”اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا رہے ہو؟ تم مجھے یہ دعوت دے رہے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ شرک کروں جس کا مجھے کوئی علم نہیں اور میں تمہیں غالب بخشنے والے (معبود) کی طرف دعوت دے رہا ہوں?“
پھر اس نے واضح کیا کہ وہ اللہ کے سوا جن معبودان باطلہ کو پوجتے ہیں، ان کے ہاتھ میں نفع نقصان کا کوئی اختیار نہیں? اس لیے ان کا عقیدہ سراسر باطل ہے? اس نے کہا: ”یہ یقینی امر ہے کہ تم مجھے جن کی طرف دعوت دے رہے ہو، وہ نہ تو دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہیں نہ آخرت میں اور ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور حد سے گزر جانے والے ہی یقینا اہل دوزخ ہیں?“ یعنی جن کو اس دنیا میں کوئی اختیار اور تصرف کی طاقت حاصل نہیں، انہیں قیامت کو کیا اختیار حاصل ہوگا؟ ان کے برعکس اللہ تعالی? نیکوں اور بدوں سب کا خالق اور رازق ہے، اسی نے بندوں کو زندگی دی ہے، پھر موت دے گا، پھر دوبارہ زندہ کرکے اطاعت گزاروں کو جنت اور نافرمانوں کو جہنم میں داخل کردے گا?
پھر اس نے انہیں مخالفت پر قائم رہنے کی صورت میں حاصل ہونے والے انجام بد سے خبردار کرتے ہوئے کہا: ”پس آگے چل کر تم میری باتوں کو یاد کرو گے? میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ یقینا اللہ تعالی? بندوں کا نگران ہے?“ لہ?ذا ”اسے اللہ تعالی? نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں?“ یعنی ان کی تردید کی وجہ سے وہ اس عذاب سے بچ گیا جو انہیں کفر و عناد اور گمراہ کن عقائد و خیالات کی وجہ سے برداشت کرنا پڑا?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.