قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

اللہ تعالی? نے کافر قبطیوں کے سردار یعنی فرعون کے ڈوبنے کی کیفیت بیان کی ہے? جب وہ پانی کی لہروں میں کبھی ڈوب رہا تھا اور کبھی ابھر رہا تھا اور بنی اسرائیل اس پر اور اس کی فوجوں پر نازل ہونے والا اللہ کا عذاب دیکھ رہے تھے تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوجائیں? جب فرعون نے دیکھا کہ موت اس کے سر پر کھڑی ہے اور اس کی جان نکلنے لگی تو اس نے توبہ کی لیکن اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ تھا? جیسے اللہ تعالی? نے فرمایا:
”یقینا جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے، وہ ایمان نہ لائیں گے، گو
ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں، جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں?“
(یونس: 97'96/10)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا:
”ہمارا عذاب دیکھتے ہی کہنے لگے: ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن جن کو ہم ان کا شریک بناتے
رہے، ہم نے ان سب کا انکار کیا? لیکن ہمارے عذاب کو دیکھ لینے کے بعد کے ایمان نے انہیں
فائدہ نہ دیا? اللہ نے اپنا معمول یہی مقرر کر رکھا ہے جو اس کے بندوں میں برابر چلا آ رہا ہے? اور
اس جگہ کافر خراب و خستہ ہوئے? “ (المو?من: 85'84/40)
حضرت موسی? علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی کہ فرعون اور اس کے سرداروں کے اموال تباہ ہوجائیں اور ان کے دل سخت ہوجائیں، انہیں دردناک عذاب میں مبتلا ہونے تک ایمان نصیب نہ ہو? اس لیے انہیں مرتے وقت کے ایمان سے کوئی فائدہ نہ ہوااور حسرت و افسوس کی حالت میں مرے? اللہ تعالی? نے پہلے ہی موسی? علیہ السلام سے فرمایا تھا: ”تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی?“ اب اس قبولیت کا اظہار ہو رہا تھا?
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ? نے فرمایا: ”جب فرعون نے کہا: میں ایمان لاتا ہوں کہ اس (اِلہ?) کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں (اس وقت کے بارے میں) جبریل علیہ السلام نے مجھے فرمایا: محمد (?)! کاش آپ دیکھتے جب میں نے سمندر کی کیچڑ لے کر فرعون کے منہ میں ٹھونس دی تھی، اس ڈر سے کہ اس پر اللہ کی رحمت نہ ہوجائے?“
مسند ا?حمد: 240/1 و جامع الترمذی‘ التفسیر‘ باب و من سورة یونس‘ حدیث: 3107
اللہ تعالی? کا یہ فرمان: ”کیا اب (ایمان لاتا ہے) اور تو پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں شامل رہا?“ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ایمان قبول نہیں ہوا کیونکہ اگر اسے مزید مہلت دی جاتی تو وہ دوبارہ گزشتہ اطوار ہی اختیار کرتا? جیسے اللہ تعالی? نے کافروں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب وہ جہنم کو آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو کہیں گے: ”ہائے! کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیے جائیں، اور اگر ایسا ہوجائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں?“
(الا?نعام: 27/6)

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.