قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

اللہ کے نبی حضرت موسی? علیہ السلام نے قوم کے لوگوں کو اللہ تعالی? کے احسان اور دینی و دنیاوی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے انہیں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے اور اللہ کے دشمنوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ”اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو?“ یعنی دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے سے جی نہ چراؤ? ”کہ پھر نقصان میں جا پڑو?“ یعنی ایسا نہ ہو کہ نفع کے بعد خسارے کا اور کمال کے بعد تنزل اور نقص کا شکار ہوجاؤ? انہوں نے جواب دیا: ”اے موسی?! وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں?“ یعنی وہ بہت زبردست، فسادی اور کافر ہیں? ”اور جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں، ہم تو ہرگز نہ جائیں گے?“ وہ ان جبارین سے ڈرگئے، حالانکہ فرعون کی ہلاکت ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی، جو اُن سے کہیں زیادہ زبردست، زیادہ ظالم اور زیادہ فوجوں والا تھا? اس سے معلوم ہوا کہ ان کی یہ بات قابل ملامت ہے کہ وہ دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہ سے پہلو تہی کررہے تھے?
بعض مفسرین نے ?جَبَّارِی±نَ? کے بارے میں بے سروپا قصے نقل کردیے ہیں جس میں ان کی غیر معمولی جسامت کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے ایک آدمی عوج بن عنق کا قد تین ہزار تین سو تینتیس ہاتھ بیان کیا گیا ہے? یہ سب بے ثبوت باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں?
اللہ تعالی? کے فرمان: ”دو شخصوں نے جو اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے اور جن پر اللہ تعالی? کا فضل تھا?“ میں اس فضل و انعام سے اسلام، ایمان، اطاعت گزاری اور شجاعت مراد ہے? انہوں نے کہا: ”تم ان کے مقابلے میں دروازے میں تو پہنچ جاؤ! دروازے میں قدم رکھتے ہی یقینا تم غالب آجاؤ گے? تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالی? ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے?“ یعنی اگر تم اللہ پر بھروسا رکھو گے، اس سے مدد مانگو گے وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں دشمنوں پر فتح دے گا? قوم نے جواب دیا: ”اے موسی?! جب تک وہ وہاں ہیں، تب تک ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے? اس لیے تم اور تمہارا پروردگار جا کر دونوں ہی لڑبھڑ لو، ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں?“ ان کے سرداروں نے جہاد نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور بزدلی کا اظہار کیا? کہتے ہیں کہ یوشع اور کالب نے یہ بات سن کر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے? حضرت موسی? علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام بھی یہ بات سن کر بہت ناراض ہوئے اور اللہ کے خوف سے سجدہ کیا? انہیں خوف محسوس ہوا کہ اس کی وجہ سے اللہ کا عذاب نہ آجائے?
حضرت موسی? علیہ السلام نے کہا: ”الہ?ی! مجھے تو بجز اپنے اور میرے بھائی کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں? پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی ڈال دے? ارشاد ہوا: ”اب یہ (زمین) ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے? یہ ادھر ادھر سرگرداں رہیں گے? اس لیے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا?“ جہاد سے انکار کی وجہ سے انہیں یہ سزا دی گئی کہ وہ دن رات، صبح شام بے مقصد گھومتے رہیں? کہتے ہیں کہ جو لوگ میدان تیہ میں داخل ہوئے تھے، وہ سب کے سب اس چالیس سالہ دور میں مرکھپ گئے? صرف یوشع اور کالب علیہماالسلام باقی بچے?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.