قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

(اور) صاحب رحم ہے? اور جب تم نے (موسی? سے) کہا: اے موسی?! جب تک ہم اللہ کو سامنے نہ
دیکھ لیں گے تم پر ایمان نہیں لائیں گے? لہ?ذا تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے? پھر موت
آجانے کے بعد ہم نے تم کو ازسر نو زندہ کردیا تاکہ احسان مانو? اور بادل کا تم پر سایہ کیے رکھا اور
تمہارے لیے من اور سلوی? اتارتے رہے کہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں، اُن کو کھاؤ
(پیو مگر تمہارے بزرگوں نے ان نعمتوں کی قدر نہ جانی) اور وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑتے تھے بلکہ اپنے
آپ پر ہی ظلم کرتے تھے?“ (البقرة: 57-49/2)
اس کے بعد فرمایا:
”اور جب موسی? نے اپنی قوم کے لیے (اللہ سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو
(انہوں نے لاٹھی ماری) تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ
معلوم کر (کے پانی پی) لیا (ہم نے حکم دیا کہ) اللہ کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو مگر
زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا? اور جب تم نے کہا: اے موسی?! ہم سے ایک (ہی) کھانے پر صبر نہیں
ہوسکتا‘ سو آپ اپنے پروردگار سے دعا کیجیے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز (وغیرہ)
جو نباتات زمین سے اُگتی ہیں، ہمارے لیے پیدا کردے? انہوں (موسی? علیہ السلام) نے کہا کہ کیا
عمدہ چیزیں چھوڑ کر اُن کے عوض ناقص چیزیں چاہتے ہو (اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں) تو کسی شہر
میں جا اترو‘ وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا? اور (آخرکار) ذلت (ورسوائی) اور محتاجی (و بے نوائی)
اُن سے چمٹا دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگئے‘ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار
کرتے تھے اور (اس کے) نبیوں کو ناحق قتل کردیتے تھے‘ اور یہ اس لیے کہ وہ نافرمانی کیے جاتے
تھے اور حد سے بڑھے جاتے تھے?“ (البقرة: 61'60/2)
یہاں اللہ تعالی? نے ان پر اپنا یہ احسان بیان فرمایا ہے کہ اس نے انہیں من و سلوی? مہیا فرمایا? یہ دونوں دل پسند کھانے تھے جو انہیں بلا مشقت حاصل ہوتے تھے? اللہ تعالی? صبح کے وقت ان پر من نازل فرماتا تھا اور شام کے وقت بٹیروں کے جھنڈ بھیج دیتا تھا? موسی? علیہ السلام کے پتھر پر عصا مارنے سے ان کے لیے اللہ کی قدرت سے بارہ چشمے جاری ہوگئے، ہر قبیلے کے لیے ایک چشمہ تھا، جس میں پہلے تھوڑا تھوڑا پانی جاری ہوتا، پھر وہ میٹھا پانی تیزی سے بہنے لگتا? وہ خود بھی پیتے، جانوروں کو بھی پلاتے اور ضرورت کے مطابق ذخیرہ بھی کرلیتے? گرمی سے بچاؤ کے لیے انہیں بادلوں کا سایہ میسر تھا?
یہ اللہ کی عظیم نعمتیں اور عطیات تھے? ان لوگوں نے ان کا کماحقہ خیال نہ رکھا، نہ ان کا شکر کرتے ہوئے کماحقہ عبادت کی? بلکہ بعد میں ان میں سے بہت سے افراد ان نعمتوں سے تنگ آگئے اور ان کے بدلے زمین سے اُگنے والی ترکاریاں اور پیاز وغیرہ مانگنے لگے?
حضرت موسی? علیہ السلام نے انہیں سختی سے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: ”بہتر چیز کے بدلے ادنی? چیز کیوں طلب کرتے ہو؟ اچھا شہر میں جاؤ، وہاں تمہیں پسند کی سب چیزیں ملیں گی?“ یعنی موجودہ بے مثال نعمتوں کے بدلے جن چیزوں کا تم مطالبہ کر رہے ہو، وہ تو ہر چھوٹی بڑی بستی والوں کو حاصل ہیں? جب تم

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.