قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

لیا? غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا?“ (ط?ہ?: 40/20)
ان آزمائشوں کی تفصیل اپنے مقام پر بیان ہوگی? (ان شاءاللہ)

حضرت موسی? علیہ السلام کے ہاتھوں ایک قبطی کی اتفاقی ہلاکت

ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور جب موسی? اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا فرمایا?
نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں? اور موسی? ایک ایسے وقت میں شہر میں آئے
جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے تو یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا? یہ ایک تو اس کے رفیقوں
میں سے تھا اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے‘ اس کی قوم والے نے اس کے خلاف جو اس کے
دشمنوں میں سے تھا، اس (موسی?) سے فریاد کی، جس پر موسی? نے اسے ایک ضرب لگائی، جس سے
وہ مرگیا? موسی? کہنے لگے: یہ تو شیطانی کام ہے، یقینا شیطان دشمن اور کھلے طور پر بہکانے والا ہے?
(پھر دعا کرنے اور) کہنے لگے: اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے معاف فرما دے‘
سو اللہ تعالی? نے انہیں بخش دیا? وہ بخشش اور بہت مہربانی کرنے والا ہے? (موسی?) کہنے لگے:
اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا، میں بھی اب ہرگز کسی گناہ گار کا مددگار نہ بنوں گا?“
(القصص: 17-14/28)
اللہ تعالی? نے پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس نے آپ کی والدہ پر احسان فرمایا کہ آپ کو ان کے پاس واپس پہنچا دیا? اب یہ بیان ہو رہا ہے کہ جب آپ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے‘ یعنی جسمانی اور اخلاقی طور پر کمال کے درجہ تک پہنچ گئے‘ اکثر علماءکے نزدیک اس سے چالیس سال کی عمر مراد ہے‘ تب اللہ نے آپ کو حکمت اور علم یعنی نبوت و رسالت کا منصب عطا فرمایا جس کی بشارت آپ کی والدہ کو اس فرمان میں دی گئی تھی: ”ہم یقینا اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے پیغمبر بنانے والے ہیں?“ (القصص: 7/28)
? قبطی کی موت پر حضرت موسی? علیہ السلام کی پشیمانی: اس کے بعد اللہ تعالی? نے وہ واقعہ بیان کیا ہے جو حضرت موسی? علیہ السلام کے مصر سے نکل کر مدین کے علاقے میں پہنچنے کا باعث بنا? آپ وہیں قیام پذیر رہے حتی? کہ مقررہ مدت ختم ہوگئی اور پھر اللہ تعالی? نے آپ سے ہم کلام ہو کر آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا جیسے کہ آیندہ بیان ہوگا?
ارشاد باری تعالی? ہے: ”اور موسی? ایک ایسے وقت شہر میں آئے جبکہ شہر کے لوگ غفلت میں تھے?“ اس میں ”وقت“ کی بابت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہُما، سعید بن جبیر، عکرمہ، قتادہ اور سُدّی رحمة اللہ علیہم فرماتے ہیں: ”یہ دوپہر کا وقت تھا?“
تفسیر ابن کثیر: 202/6 تفسیر سورةالقصص‘ آیت: 15
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہُما سے ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد مغرب اور عشاءکے درمیان کا وقت ہے? ارشاد باری تعالی? کا مفہوم: ”یہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا?“ یعنی وہ آپس میں

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.