قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

شہر بن حوشب? بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنی قوم پر برتری کے اظہار کے لیے معمول سے ایک بالشت زیادہ لمبے کپڑے پہننا شروع کردیے تھے? تفسیر الطبری: 129/11 تفسیر سورة القصص‘ آیت: 76
”اس کے پاس بہت زیادہ خزانے تھے حتی? کہ ان کی چابیاں قوی ہیکل مردوں کی ایک جماعت بمشکل اُٹھاتی تھی? اس کی قوم میںسے اس کے خیر خواہ افراد نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا: ”اِترا مت!“ یعنی اللہ نے تجھے جو دولت دی ہے، اس پر فخر نہ کر اور دوسروں کی تحقیر کرتے ہوئے برتری کا اظہار نہ کر! ”اللہ تعالی? اِترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا? اور جو کچھ اللہ تعالی? نے تجھے دے رکھا ہے، اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ!“ یعنی تجھے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ آخرت کا ثواب حاصل کرے ”اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول!“ یعنی اپنے مال کے ذریعے سے حلال اشیا حاصل کر اور پاک حلال اشیا سے لطف اندوز ہو? ”اور جیسے اللہ تعالی? نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی احسان کر!“ یعنی جس طرح اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی اللہ کی مخلوق پر احسان کر! ”اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو!“ یعنی لوگوں سے بدسلوکی نہ کر اور اللہ کی نافرمانی نہ کر ورنہ وہ تجھے سزا دے گا اور جو کچھ تجھے دیا ہے تجھ سے چھین لے گا? ”یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند کرتا ہے?“
اس واضح اور درست نصیحت کے جواب میں قارون نے کہا: ”یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا ہی پر دیا گیا ہے?“ یعنی مجھے تمہاری بات سننے اور تمہاری نصیحت سننے کی کوئی ضرورت نہیں? مجھے اللہ نے اتنی دولت اس لیے دی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں? اگر میں اللہ کی نظر میں پیارا نہ ہوتا تو وہ مجھے یہ سب کچھ نہ دیتا?
اللہ تعالی? نے اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ”کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالی? نے اس سے پہلے بہت سی اُمتیں غارت کردیں، جو اس سے بہت زیادہ قوت والی اور بہت بڑی جمع پونجی والی تھیں‘ اور گناہ گاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس نہیں کی جاتی؟“ مطلب یہ ہے کہ گزشتہ اقوام میں ہم نے ایسے لوگوں کو بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے تباہ کردیا تھا جو قارون سے زیادہ طاقتور اور زیادہ مال دار اور زیادہ اولاد والے تھے? اگر قارون کی بات درست ہوتی تو ہم اس سے زیادہ مال رکھنے والوں کو سزا نہ دیتے? اس لیے اس کا مالدار ہونا ہمارا پیارا ہونے کی دلیل نہیں? جیسے اللہ تعالی? کاارشاد ہے:
”اور تمہارے مال اور اولاد ایسے نہیں کہ تمہیں ہمارے قریب کردیں‘ سوائے ان کے جو ایمان
لائیں اور نیک عمل کریں?“ (سبا?: 37/34)
نیز ارشاد ہے:
”کیا یہ (یوں) سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو بھی ان کے مال و اولاد بڑھا رہے ہیں، وہ ہم ان کی
بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں؟ (نہیں نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں?“
(المو?منون: 55'56/23)
اللہ تعالی? نے فرمایا: ”پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا?“ آرائش سے

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.