قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت مُوسىٰ علیہ السلام

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ ? نے یہ ارشاد تواضع اور کسر نفسی کی بنیاد پر فرمایا ہے ورنہ نبی? کا خاتم النبیین اور تمام اولاد آدم کا سردار ہونا قطعی اور یقینی ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں?
اللہ تعالی? نے مختلف انبیاءکا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
”اور موسی? (علیہ السلام) سے اللہ تعالی? نے صاف طور پر کلام کیا?“ (النسائ: 164/4)
مزید ارشاد ربانی ہے:
”اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسی? کو تکلیف دی? پس جو بات انہوں
نے کہی تھی، اللہ تعالی? نے آپ کو اس سے بری فرما دیا اور وہ اللہ کے نزدیک باعزت تھے?“
(الا?حزاب: 69/33)
حضرت ابو ہریرہ? سے روایت ہے کہ رسول اللہ ? نے فرمایا: ”حضرت موسی? علیہ السلام بڑے حیا دار اور جسم کو پوری طرح ڈھانپنے والے شخص تھے? ان کی شرم و حیا کے سبب کوئی ان کا بدن نہیں دیکھ سکتا تھا? انہیں ایذا پہنچانے کے لیے بنی اسرائیل کے کچھ افراد نے کہا: آپ اپنے بدن کا اس قدر پردہ کسی عیب یا جلدی بیماری مثلاً برص یا فتق کی وجہ سے کرتے ہیں? اللہ تعالی? نے چاہا کہ آپ کا بے عیب ہونا ظاہر ہوجائے تو ایک روز موسی? علیہ السلام نے تنہائی میں جا کر اپنے کپڑے اتارے اور ایک پتھر پر رکھ دیے‘ پھر نہانے لگے‘ فارغ ہو کر اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ اُٹھا? موسی? علیہ السلام اپنا عصا لے کر پتھر کے پیچھے دوڑے اور فرمانے لگے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے! اے پتھر! میرے کپڑے دے دے! حتی? کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ تک جا پہنچے جنہوں نے موسی? علیہ السلام کا بے لباس جسم انتہائی خوبصورت اور بے عیب دیکھا? اس طرح اللہ تعالی? نے آپ کو ان کے لگائے ہوئے الزام سے بری فرمادیا? اس وقت پتھر ٹھہر گیا? آپ نے اپنے کپڑے پہنے اور پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے? قسم ہے اللہ کی! موسی? علیہ السلام کے مارنے سے پتھر پر تین یا چار یا پانچ نشان پڑگئے? یہی مطلب ہے اللہ تعالی? کے اس فرمان کا: ”پس جو بات انہوں نے کہی تھی، اللہ نے آپ کو اس سے بری فرما دیا اور آپ اللہ کے نزدیک باعزت تھے?“ صحیح البخاری‘ ا?حادیث الا?نبیائ‘ حدیث: 3404
بعض علماءنے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی? کے دربار میں حضرت موسی? علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کی عظمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے حق میں دعا فرمائی کہ وہ آپ کے وزیر ہوں تو اللہ تعالی? نے آپ کی درخواست قبول فرما کر ہارون علیہ السلام کو منصب نبوت پر فائز فرمادیا? جیسے ارشاد ہے: ”اور اپنی خاص مہربانی سے اس کے بھائی کو نبی بنا کر اسے عطا فرمایا?“ (مریم: 53/19)
حضرت عبداللہ بن مسعود? سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ? نے کوئی چیز (صحابہ رضی اللہ عنھُم میں) تقسیم فرمائی? ایک شخص نے کہا: اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں تھی‘ یعنی اس نے نبی? پر بے انصافی کا الزام لگایا? میں نے نبی? کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ بات عرض کی تو آپ کو غصہ آگیا حتی? کہ میں نے نبی ? کے چہرہ? اقدس پر خفگی کے آثار دیکھے? پھر آپ? نے (غصہ ضبط کرتے ہوئے) فرمایا: ”اللہ تعالی? حضرت موسی? علیہ السلام پر رحم فرمائے! انہیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی تھی‘ تو انہوں نے

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت مُوسىٰ علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.