قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت نُوح علیہ السلام

”میں ایمان والوں کو اپنے پاس سے نہیں نکال سکتا? انہیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا
ہوں کہ تم لوگ جہالت کررہے ہو?“ (ھود: 29/11)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ نوح علیہ السلام مومنوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیں اور وعدہ کیا کہ اگر وہ اس مطالبے کو تسلیم کرلیں تو وہ ان کے پاس بیٹھیں گے? نوح علیہ السلام نے یہ مطالبہ رد کردیا اور فرمایا: ”انہیں اپنے رب سے ملنا ہے?“ یعنی اگر میں نے انہیں ہٹایا تو مجھے خوف ہے کہ اللہ تعالی? ناراض ہوگا? ”کیا تم سمجھتے نہیں؟“ (ھود: 30/11)
کفار قریش نے بھی نبی? سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ عمار، صہیب، بلال، خباب رضی اللہ عنُھم اور ایسے دوسرے حضرات کو اپنے پاس سے اُٹھادیں تو اللہ تعالی? نے نبی? کو یہ بات ماننے سے منع فرما دیا? جیسے کہ سورہ? کہف اور سورہ? انعام میں مذکور ہے? نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے مزید فرمایا:
”اور میںنہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور
نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں? اور نہ ان لوگوں کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو‘ یہ
کہتا ہوں کہ اللہ ان کو بھلائی (یعنی اعمال کی جزائے نیک) نہیں دے گا? جو اُن کے دلوں میں
ہے اُسے اللہ خوب جانتا ہے? اگر میں ایسا کہوں تو بے انصافوں میں ہوں?“ (ھود: 31/11)
یعنی میں تو رسول عبد (پیغام پہنچانے والا بندہ) ہوں مجھے صرف اتنا ہی علم ہے جتنا اللہ نے مجھے سکھایا اور صرف اتنی ہی طاقت ہے جتنی اللہ نے دی‘ میں تو اللہ کی مرضی کے خلاف اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں? اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میرے پیروکاروں کے لیے قیامت کو اللہ کے ہاں کوئی نعمت نہیں ہوگی، ان کے بارے میں اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے؟ وہ نیکی کا اچھا بدلہ دے گا اور گناہ کا برا بدلہ دے گا? دوسرے مقامات پر مذکور ہے کہ ان لوگوں نے کہا:
”کیا ہم تم کو مان لیں‘ حالانکہ تمہارے پیروکار تو رذیل لوگ ہیں? نوح نے کہا: مجھے کیا معلوم کہ وہ
کیا کرتے ہیں? اُن کا حساب میرے پروردگار کے ذمے ہے‘ کاش! تم سمجھو? اور میں مومنوں کو
نکال دینے والا نہیں ہوں‘ میں تو صرف کھول کھول کر نصیحت کرنے والا ہوں?“
(الشعرائ: 115-111/26)

جب قوم نے خود عذاب مانگا

صدیاں بیت گئیں، لیکن حضرت نوح علیہ السلام کا قوم سے بحث و مباحثہ چلتا رہا? جیسے کہ اللہ تعالی? نے فرمایا ہے:
”سو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے‘ پھر اُن کو طوفان (کے عذاب) نے آپکڑا اور وہ ظالم تھے?“ (العنکبوت: 14/29) یعنی اتنی طویل مدت گزر جانے کے بعد تھوڑے سے افراد ایمان لائے?
جب ایک نسل کے لوگ مرتے تو وہ بعد والوں کو یہ وصیت کر جاتے تھے کہ حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان نہ لانا، ان سے جھگڑتے اور ان کی مخالفت کرتے رہنا? جب کسی کا بچہ بڑا ہوتا اور اس کی باتیں سمجھنے لگتا تو باپ اپنے بیٹے کو یہی نصیحت کرتا تھا کہ زندگی بھر نوح علیہ السلام پر ایمان نہ لانا?

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت نُوح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.