قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت صالح علیہ السلام

اس موقع پر آپ نے نرم لہجے اور نرم الفاظ میں بات کی اور انہیں نیکی کی طرف بلانے میں خوبصورت انداز اختیار کیا اور فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر معاملہ سچ مچ ویسے ہی ہوا جیسے میں کہتا ہوں تو تم اللہ کے ہاں کیا عذر پیش کرسکو گے؟ اس کے دربار میں تم کیسے جان چھڑا سکو گے؟ تم مجھ سے مطالبہ کرتے ہو کہ میں تمہیں اس کی اطاعت کی طرف بلانا چھوڑ دوں، میرے لیے یہ قطعاً ممکن نہیں، کیونکہ یہ مجھ پر فرض ہے? اگر میں اس کی ادائیگی ترک کردوں تو مجھے اللہ کے عذاب سے نہ تم بچا سکوگے نہ کوئی اور میری مدد کرسکے گا? اس لیے میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلاتا رہوں گا، حتی? کہ اللہ تعالی? میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے?
سورة الشعراءمیں دعوت صالح علیہ السلام کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے? ارشاد باری تعالی? ہے:
”اور قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا? جب اُن کو اُن کے بھائی صالح نے کہا: تم ڈرتے کیوں
نہیں؟ میں تو تمہارا امانت دار پیغمبر ہوں? سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں اِس کا تم سے بدلہ
نہیں مانگتا? میرا بدلہ (اللہ) رب العالمین کے ذمے ہے? کیا جو چیزیں (تمہیں یہاں میسر) ہیں
اِن میں تم بے خوف چھوڑ دیے جاؤگے؟ (یعنی) ان باغون اور ان چشموں اور ان کھیتوں اور ان
کھجوروں کے باغوں میں جن کے شگوفے نرم و نازک ہیں? اور تم تکلف سے پہاڑوں میں تراش
تراش کر گھر بناتے ہو? سو اللہ سے ڈرو اور میرے کہنے پر چلو اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی بات
نہ مانو جو ملک میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے?“ (الشعرائ: 152-141/26)
? قوم کی بدشگونی: دعوت حق کو تھامنے کی بجائے قوم نے حضرت صالح علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں سے بدشگونی لینا شروع کردی اور فساد کے لیے صلاح مشورہ کرنے لگے? اللہ تعالی? نے ان کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
”اور ہم نے ثمود کی طرف اُس کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو‘ پھر بھی وہ دو
فریق ہوکر آپس میں جھگڑنے لگے? صالح نے کہا کہ بھائیو! تم بھلائی سے پہلے برائی کے لیے
کیوں جلدی کرتے ہو (اور) اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے؟ وہ کہنے لگے
کہ تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے برا شگون لائے ہو? صالح نے کہا کہ تمہاری بدشگونی اللہ کی
طرف سے ہے بلکہ تم ایسے لوگ ہو جو فتنے میں پڑے ہوئے ہو? اور اس شہر میں نو شخص تھے جو ملک
میں فساد کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے? انہوں نے آپس میں قسمیں کھا کر عہد کیا کہ
ہم رات کو اس پر اور اس کے گھر والوں پر شبخون ماریں گے‘ پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ
ہم صالح کے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر گئے ہی نہیں اور ہم بالکل سچ کہتے ہیں?“
(النمل: 49-45/27)
? اللہ کے نبی پر رکیک حملے: حضرت صالح علیہ السلام کی قوم اپنی ضد پر اڑی رہی اور دعوت توحید کو قبول کرنے کی بجائے اپنے نبی کی ذات پر رکیک حملے شروع کردیے? ارشاد باری تعالی? ہے:
”ثمود نے بھی ہدایت کرنے والوں کو جھٹلایا اور کہا کہ بھلا ایک آدمی جو ہم ہی میں سے ہے ہم اُس

صفحات

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
حضرت صالح علیہ السلامعمومی تباہی سے دوچار ہونے والی اقوام
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.