قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت یُوشع بن نُون علیہ السلام

”اور جب ان کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ اس آبادی میں جا کر رہو اور کھاؤں اس سے جس جگہ تم رغبت
کرو اور زبان سے یہ کہتے جانا کہ توبہ ہے اور سجدہ کرتے ہوئے دروازہ میں داخل ہونا‘ ہم تمہاری
خطائیں معاف کردیں گے? جو لوگ نیک کام کریں گے ہم ان کو مزید دیں گے‘ چنانچہ ان ظالموں
نے بدل کر ایک اور کلمہ کہا جو خلاف تھا اس کلمہ کے جو انہیں بتایا گیا تھا? اس پر ہم نے ان پر ایک
آفت سماوی بھیجی‘ اس وجہ سے کہ وہ حکم کو ضائع کرتے تھے?“ (الا?عراف: 161/7‘162)
”اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں جاؤ اور جو کچھ جہاںکہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو اور
دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو اور زبان سے [حِطَّةµ] کہو! ہم تمہاری خطائیں معاف
کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ دیں گے? پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو اُن سے کہی
گئی تھی، بدل ڈالا? ہم نے ان ظالموں پر ان کے فسق و نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل
کیا?“ (البقرة: 58/2‘59)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنُہما بیان کرتے ہیں: ”سجدہ کرتے ہوئے دروازہ میں داخل ہونا?“ اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے دروازے سے جھکے جھکے (رکوع کی حالت میں) داخل ہونا?“
مجاہد، سُدی اور ضحاک رحمة اللہ علیہم بیان کرتے ہیں: ”دروازے سے مراد بیت المقدس کے شہر کا دروازہ ہے?“
عکرمہ? نے فرمایا: ”وہ لوگ حکم کے خلاف سر اُٹھائے (اکڑتے) ہوئے داخل ہوئے?“
تفسیر الطبری:433/1‘ 434تفسیر سورة البقرة‘ آیت:59
یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہُما کے اس فرمان کے خلاف نہیں ہے کہ وہ لوگ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے تھے? اصل بات یہ ہے کہ وہ دروازے میں سے گزرتے وقت سرین کے بل گھسٹ رہے تھے اور انہوں نے سر اوپر اُٹھا رکھے تھے?
اور کہو: ?حِطَّةµ? ”توبہ ہے?“ اس کا مطلب یہ ہے کہ سجدے کرتے ہوئے اس انداز میں داخل ہو کہ تمہاری زبان پر استغفار اور توبہ کے الفاظ ہوں?
حضرت ہمام بن منَبّہ? نے حضرت ابو ہریرہ? سے روایت کیا کہ رسول اللہ? نے فرمایا: ”اللہ تعالی? نے بنی اسرائیل سے فرمایا: ”دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو: معاف فرما! ہم تمہاری غلطیاں معاف کردیں گے?“ انہوں نے (الفاظ کو) تبدیل کردیا? وہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے اور کہا: (حَبَّةµ فَی± شَع±رَةٍ) ”بال میں دانہ“
صحیح البخاری‘ ا?حادیث الا?نبیائ‘ باب‘ حدیث: 3403 وصحیح مسلم‘ التفسیر‘ باب فی تفسیر آیات متفرقة‘ حدیث: 3015
اللہ تعالی? نے بیان فرمایا کہ اس نے اس حکم عدولی کی سزا کے طور پر ان پر عذاب نازل کیا، یعنی طاعون کی وبا بھیج دی? حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنُہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ? نے فرمایا: ”یہ بیماری (یعنی طاعون) عذاب ہے جس کے ذریعے سے تم سے پہلی کچھ امتوں کو سزا دی گئی تھی?“

صفحات

متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.