قصص الانبیاء 
18 فروری 2011
وقت اشاعت: 13:48

حضرت زکریا اور حضرت یحیی علیہماالسلام

اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کردیا? یہ بزرگ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں امید اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے?“
(الا?نبیائ: 90/21) بیوی کو درست کرنے کا مطلب ان کے نظام تولید کا درست ہونا اور ماہانہ نظام کا دوبارہ جاری ہونا ہے? کہنے لگے: ”میرے پروردگار! میرے لیے کوئی علامت مقرر فرمادے?“ تاکہ مجھے معلوم ہوجائے کہ حمل قرار پاچکا ہے? ارشاد ہوا: ”تیرے لیے علامت یہ ہے کہ باوجود بھلا چنگا ہونے کے تو تین راتوں تک کسی شخص سے بول نہ سکے گا?“ یہ خوش خبری ملنے پر آپ خوش خوش حجرے سے باہر تشریف لائے‘ تو ہم نے ان کی طرف وحی کی کہ ”تم صبح شام اللہ تعالی? کی تسبیح بیان کرو?“
حضرت مجاہد‘ عکرمہ‘ وہب اور سدی رحمة اللہ علہیم فرماتے ہیں: آپ کی زبان بغیر کسی مرض کے بند ہوگئی تھی? ابن زید? فرماتے ہیں: ”آپ تلاوت کرسکتے تھے، ذکر و تسبیح کرسکتے تھے لیکن کسی سے بات چیت نہیں کرسکتے تھے?“ تفسیر الطبری: 6/9 تفسیر سورة مریم‘ آیت: 9

یحیی? علیہ السلام کو کتاب اور حکمت و دانائی عطا کی

ارشاد باری تعالی? ہے:
”اے یحیی?! (میری) کتاب کو مضبوطی سے تھام لے‘ اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرمادی?“ (مریم: 12/19) اللہ تعالی? نے خوش خبری کے مطابق حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹا عطا فرما دیا اور اس بیٹے (یحیی?) کو بچپن ہی میں کتاب کا علم اور دانائی عطا فرمادی?
حضرت معمر? فرماتے ہیں: بچوں نے حضرت یحیی? علیہ السلام سے کہا: ” آؤ کھیلیں!“ آپ نے فرمایا: ”ہمیں کھیلنے کے لیے پیدا نہیں کیاگیا?“ اللہ تعالی? کے اس فرمان: ” اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرمادی?“ کا یہی مطلب ہے?
ارشاد باری تعالی? ہے: ”اور اپنے پاس سے شفقت“ یعنی ہم نے حضرت زکریا علیہ السلام پر رحمت کی کہ انہیں حضرت یحیی? علیہ السلام عطا فرمائے? عکرمہ? فرماتے ہیں: شفقت یعنی محبت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یحیی? علیہ السلام لوگوں پر ترس کھاتے تھے اور خاص طور پر اپنے والدین سے شفقت و محبت کا اظہار کرتے تھے اور ان سے حسن سلوک کرتے تھے? ?وَزَک?وةً? ”اور پاکیزگی بھی عطا فرمائی?“ یعنی عمدہ اخلاق، بری عادات سے مبرا ہونا، تقوی?، اللہ تعالی? کے احکام کی تعمیل اور ممنوع کاموں سے اجتناب? یہ سب پاکیزگی میں شامل ہے? ” اور وہ اپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے والا تھا? وہ سرکش اور گناہ گار نہ تھا?“ (مریم: 14/19) پھر فرمایا: ”اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا، جس دن فوت ہوگا اور جس دن زندہ کرکے اُٹھایا جائے گا?“ (مریم: 15/19) یہ تین مراحل انسان کے لیے بڑے کٹھن ہیں? ان موقعوں پر وہ ایک جہان سے دوسرے جہان میں منتقل ہوتا ہے? وہ پہلے جہان سے مانوس ہوچکا ہوتا ہے، پھر اسے چھوڑ کر دوسرے جہان میں جانا پڑتا ہے جس کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہاں کیا حالات پیش آنے والے ہیں؟ اس لیے جب وہ ماں کے جسم سے جدا ہوتا ہے تو روتا اور چیختا ہے اور غم و تفکرات کا سامنا کرنے کے لیے اِس جہان میں منتقل ہوجاتا ہے?

صفحات

متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.