خواب تھا دیدہ بیدار تک آ گیا تھا

خواب تھا دیدہ بیدار تک آ گیا تھا
دشت بڑھتا ہوا دیوار تک آ گیا تھا

عشق کچھ سوچ کے خاموش رہا تھا ورنہ
حسن بکتا ہوا بازار تک آ گیا تھا

میں نے مجبوری میں تلوار اٹھائی تھی میاں
ہاتھ بڑھتا ہوا دستار تک آ گیا تھا

عین اس وقت مقدّر نے بغاوت کر دی
جب میں اس شخص کے معیار تک آ گیا تھا

اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن میرے کردار تک آ گیا تھا

میرے اندر کے کسی ہجر نے روکا ہے مجھے
ورنہ میں عشق کے انکار تک آ گیا تھا

رات آنکھوں سے کوئی اشک بغاوت کر کے
مسکراتا ہوا رخسار تک آ گیا تھا

Posted on Jan 19, 2013