فرض

فرض

چلو تم کو ملاتے ہیں ہم اس مہمان سے پہلے ،
جو ہمارے جسم میں رہتا تھا ہماری جان سے پہلے ،

ہمیں جی بھر کے اپنی موت کو تو دیکھ لینے دو
نکل جائے نا ہماری جان ہمارے اَرْمان سے پہلے ،

کوئی خاموش ہو جائے تو اسکی خاموشی سے ڈر لگتا ہے ،
سمندر چپ ہی رہتا ہی کسی طوفان سے پہلے ،

ہماری آنکھوں میں ابھی موتیوں کا سلسلہ دیکھو
یہ مالا روز جپٹے ہیں ہم اک مسکان سے پہلے ،

پُرانے یار ہیں " ساقی " یہ ہمارا فرض بنتا ہے ،
تجھے ہوشیار کردیں ہم تیرے نقصان سے پہلے . . . ! !

Posted on Feb 16, 2011