دھوپ اور چھاؤں کے نظارے تھے

دھوپ اور چھاؤں کے نظارے تھے
دل کی دولت جہاں پہ ہارے تھے

بیوفائی کا اب گلہ کیسا
آپ پہلے بھی کب ہمارے تھے

بیوفائی کا اب گلہ کیسا
آپ پہلے بھی کب ہمارے تھے

میری آنکھوں میں پھیلتے ہوئے رنگ
کل تلک آپکو بھی پیارے تھے
ہے گھروندہ میرا تو مٹی کا
تیری راہوں میں چاند تارے تھے

چھو لیا تھا گلوں کو چاہت سے
جل گئے ہاتھ وہ شرارے تھے . . . !

Posted on Aug 10, 2012