اس شاہ لطیف کی دھرتی میں

اس شاہ لطیف کی دھرتی میں
اس امن و پیار کی بستی میں
میں پیدا ہوا اس دھرتی میں
پروان چڑھا اس بستی میں
کھانا بھی یہیں کا کھایا ہے
پانی بھی اسی دھرتی کا پیا
اب مرنا جینا سب کچھ ہی
اس دھرتی سے ہی جوڑے لیا
پھر مجھ سے دور کیوں رھتے ہو ؟
کیوں مجھ کو غیر سمجھتے ہو ؟
میں تم سے الگ ، تم مجھ سے جدا
کیوں ایسی سوچیں رکھتے ہو ؟
اپنوں کو غیر سمجھتے ہو
غیروں کو اپنا سمجھتے ہو
تم مانو اسے یا نا مانو
یہ دھرتی میری دھرتی ہے
اس شاہ لطیف کی دھرتی کو
میں اپنی دھرتی مانتا ہوں
اب اس کے سلے میں تم مجھ سے
کیا چاہتے ہو ؟ یہ مجھ سے کہو
کچھ کھل کر دل کی بات کرو
کچھ میرے دل کی بات سنو
میں سب کچھ وہ کر گزروں گا
تم مجھ سے جو بھی چاہتے ہو
اک بار لگا کر دل سے مجھے
تم اپنا سمجھ کر پرکھو تو
اک پھول ہوں میں اپنوں کے لیے
اور آگ ہوں میں غیروں کے لیے
سینے سے لگا کر دیکھو تو
دھرتی کے لیے بستی کے لیے
ہر دن یہ تماشہ ہوتا ہے
اس دھرتی میں اس بستی میں
کے آپس میں ہم لڑتے ہیں
اور دشمن موج ہی کرتے ہیں
کب تک یہ تماشہ ہو گا کے
ہم اپنا خون ہی کرتے رہیں
اور سارے دشمن ، غیر سبھی
خوشیوں کی مالا جپتے رہیں
یہ سارا تماشہ ختم کریں
سب دوری ، تلخی مٹا دیں ہم
دھرتی کے سکھ کی خاطر اب
آپس میں ایکا کر لیں ہم
تم ہاتھ جو ایک بڑھاؤ گے
میں دونوں ہاتھ بڑھاؤں گا
پھر دل سے دل مل جائیں گے
یوں ہم سب ایک ہو جائیں گے

Posted on Feb 16, 2011