ماں

خدا نے دونوں عالم جب بنائے
انوکھے ہر طرف جلوے دکھائے
زمین و آسْمان اس میں بسائے
فلک پر کہکشاں ، تارے سجائے
چمن میں نت نئے سبزے اگائے
خدا نے دونوں عالم جب بنائے

بنا کر اس نے پھر روئے زمین پر
جناب حضرت انسان کو بھیجا
خدا کا جس میں سب نے عکس دیکھا
جہاں میں خوشبوؤں کو پھر بکھیرا
اندھیرا اور کہیں روشن سویرا !
غرض ہر شے کو جب اس نے بنا کر
ہمارے واسطے دنیا سجا کر
خود اپنی غور سے تخلیق دیکھی
پھر اس نے ایک نئی تصویر کھینچی

وہ ایسی سوچ والا شان والا
جہاں میں سب سے اونچی آن والا
نا مٹ پائی جب اس کی تشنگی پھر
کہیں محسوس کرلی ایک کمی پھر
تو اس نے چادر رحمت کو بن کر
ہزاروں چاہتوں کے پھول چن کر
گلوں سے شبنم پاکیزہ لے کر
دھنک کے خوبصورت رنگ دے کر
محبت کے سمندر کو سمیٹا
دعاؤں کا خزانہ اس میں بھر کر
تقدس سے حسین چہرہ بنایا
کے جس کے ہر طرف ایک نور چھایا
کے جس کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے
کے جس کی پلکوں پے سپنے سجے تھے
امید صبح روشن کی چمک تھی
ستاروں اور چراغوں کی دمک تھی
کے جس کے ہونٹوں پہ لرزاں کہیں پر
یقینا اس سمے کوئی سدا تھی
بہت معصوم سی کوئی دعا تھی

خدا نے لمحے بھر کو پھر سے سوچا !
اور اپنی اس انوکھی شے کو دیکھا
بہت ہی نیک پل اور ساعتوں سے
زمین و آسْمان کی وسعتوں سے
نئے جزبوں ، انوکھی چاہتوں سے
ہزاروں نعمتوں اور رحمتوں سے
نئی تخلیق کے سینے میں اس نے
امنگوں سے بھرا ایک دل بنایا
فرشتوں نے بیک آواز مل کر
محبت کا انوکھا گیت گیا
خدا بھی دوستوں پھر مسکرایا

در خورشید سے پہلی کرن لی !
اور اس میں چاند کی ٹھنڈک بھی رکھ دی
پھر اس نے حوصلے ، ہمت بھی دے کر
خلوص و رحمت و راحت بھی دے کر
عبادت ، برکت و عظمت بھی دے کر
محبت ، درد اور خدمت بھی دے کر
کئی جھرنوں کے بہتے پانیوں سے
کئی جزبوں سے اور قربانیوں سے
غرض ہر رنگ سے آمیز کر کے
ہر ایک دولت سے یوں لبیرز کر کے
بنا کر جب سراپا یہ سجایا
اور ایک عالم کو جب اس نے دکھایا
سب ہی نے مان لی اس کی کھدائی
خدا کو اپنی یہ تخلیق بھائی
کرم کی دل میں پھر چادر بچھای
اور اس میں ہر طرف ممتا سجائی
پھر ان قدموں میں ایک جنت بسائی
خدا نے تب کہیں ایک ماں بنائی

خدا نے تب کہیں ایک ماں بنائی

Posted on Feb 16, 2011