سو برس کی زندگی میں ایک پل

سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کر لے کوئی اچھے عمل
تجھ کو دنیا میں ملے گا اس کا پھل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل

غم کو سینے سے لگانا سیکھ لے
غیر کو اپنا بنانا سیکھ لے
درد سہ کر مسکرانا سیکھ لے
چھوڑ خودغرضی وفا کی راہ چل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل

ایک آدم کی سبھی اولاد ہیں
کچھ تو خوش ہیں اور کچھ ناشاد ہیں
جرم ان کا کیا ہے جو برباد ہیں
تو زمانے کے اصولوں کو بدل

دوسروں کے واسطے زندہ رہو
جان بھی جائے تو ہنس کر جان دو
موت کے آگے بھی شرمندہ نا ہو
تو سدا انسانیت راہ چل
آج جو کچھ بوئے گا کٹے گا کل . . . . !

Posted on Apr 23, 2012