دسمبر آن پہنچا ہے

دسمبر آن پہنچا ہے

ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

آنگن میں اُتَر آئی ہے مانوس سی خوشبو
یادوں کا اژدھام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

خاموشیوں کا راج ہے خزاں تاک میں ہے
اُداسی بھی بہت عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
نئے سال کا اہتمام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

خنک رت میں اُداسی بھی چوکھٹ پے کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

تم آؤ تو میرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
نئی رت تو سر بام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

Posted on Feb 16, 2011