دسمبر نہیں رکا

دسمبر نہیں رکا

لمبے سفر کی اوٹ میں پل بھر نہیں رکا
میں وقت کے فریب میں آ کر نہیں رکا

پھر آ گیا ایک نیا سال دوستو . . .
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا

لے کر کسی نین ہاتھ میں کشکول وقت
ایسا سفر کیا کے کہیں پر نہیں رکا

منظر کے عکس میں کوئی چہرہ چٹخ گیا
شیشے کے پاس آ کے جو پتھر نہیں رکا

چلتا رہا عدو کی صفحیں روندتا ہوا
لاکھوں کا خون جگر کر کے بھی لشکر نہیں رکا

بس یہ ہوا کے آخری لمحہ بھی آ گیا
دل کا طواف کوچہ دلبر نہیں رکا

Posted on Feb 16, 2011