او حکمرانو

او حکمرانو

میرے چمن کو کردیا ہے کس نے ایسا
اس گھتی کو اب تو سلجھا لینے دو

بنایا بھائی کو بھائی کا دشمن کس نے
خدارا نفرتوں کی آڑھ کو اب تو مٹا لینے دو

مسل رہے ہیں ہاتھوں میں اغیار ہم کو
وطن کو اپنوں سے اب تو سجا لینے دو

چکھے ہم نے مزے بہت ہیں آمریت کے
جمہوریت کی بھی ہوا اب تو چلا لینے دو

ہے آرزو سب کی اپنے وطن کی خوشحالی
جامع عملی اسے اب تو پہنا لینے دو

جنگوں میں ہی گزری ہے زندگانی اب تک
کچھ امن و سکون کا اب تو مزہ لینے دو

ہو ہر طرف ہی کامرانیوں کے چراغ
ناکامیوں کی آگ کو اب تو بجھا لینے دو

ہاں اس گھتی کو اب تو سلجھا لینے دو
او حکمرانوں ! امن کو اب تو آ لینے دو

Posted on Feb 16, 2011