یہ لوگ

یہ لوگ

نا کھو جائیں یہ لوگ پھر اس گلشن میں
ہو جائے آج پھر اجڑے ہوئے موسموں کی بات

انہیں تو یہ جان کر وہم ہی لگے گا
بہاروں میں سن کر اجڑے ہوئے موسموں کی بات

یہ موسی و نوح کا قصہ کھلا ہے کہیں
یہ ہو رہی ہی کدھر اجڑے ہوئے موسموں کی بات

جڑ سے ہی اکھاڑ کر لے گئے ہیں یہ طوفان
سن کے ذرا ڈر اجڑے ہوئے موسموں کی بات

ہمیں دیکھ رہیں ہوں گے وہ بزرگ بھی کہیں سے
جو کر گئے بے فکر ، اجڑے ہوئے موسموں کی بات

اب یہ ذیست نا ہی دیکھے اس حقیقت کو
کے مانتی نہیں نظر اجڑے ہوئے موسموں کی بات

Posted on Feb 16, 2011