اب تیری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

اب تیری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کھُلنے سے اذیت نہیں ہوتی مجھ کو

اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو

ایسا بدلا ہوں تیرے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو

میں نے بھی کی ہے محبت ، سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو

اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں یارو
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو

Posted on Feb 16, 2011