بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی

بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی

کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر راہگذر میں رہ گئی

گُونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اُس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی

آ رہی ہے اب بھی دروازے سے اُن ہاتھوں کی باس
جذب ہو کر جن کی ہر دستک ہی در میں رہ گئی

اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس ذرا سی برف ہر سُوکھے شجر میں رہ گئی

رات دریا میں پھر اِک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی

رات بھر ہوتا رہا ہے کِن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگِ تر میں رہ گئی

لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدیم
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی

دل کِھنچا رہتا ہے کیوں اس شہر کی جانب عدیم
جانے کیا شے اُس کی گلیوں کے سفر میں رہ گئی

Posted on May 20, 2011