دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے

دیکھ رہا ہے دریا بھی حیرانی سے
میں نے کیسے پار کیا آسانی سے

ندی کنارے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
کیا رشتہ ہے میرا بہتے پانی سے

ہر کمرے سے دھوپ ، ہوا کی یاری تھی
گھر کا نقشہ بگڑا ہے من مانی سے

اب جنگل میں چین سے سویا کرتا ہوں
ڈر لگتا تھا بچپن میں ویرانی سے

دل پاگل ہے روز پشیماں ہوتا ہے
پھر بھی بعض نہیں آتا نادانی سے .

Posted on Feb 16, 2011