جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر

جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر
سُورج تھا جیسے، چاند نہ تھا آسمان پر

اِک روگ ہے کہ جاں کو لگا ہے اُڑان کا
ٹُوٹا ہوا پڑا ہوں پروں کی دُکان پر

میں راستوں میں اس کا لگاؤں کہاں سراغ
سو سو قدم ہیں، ایک قدم کے نشان پر

بادل کو چُومتی رہیں پُختہ عمارتیں
بجلی گِری تو شہر کے کچے مکان پر

اُس تند خُو کو راہ میں ٹھہرا لیا ہے کیا
دریا عدیم روک لیا ہے ڈھلان پر

Posted on May 23, 2011