جو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں لے سکتا

ریت اور برف پہ نقشِ کفِ پا میرا ہے
میں نے ہر سمت میں، ہر ملک، میں ہر موسم میں
جستجو کی ہے کہ شاید کوئی اپنا مل جائے
کوئی وہ، جس کے قریب آ کے یہ محسوس کروں
زندہ رہنے کا مجھے بھی کوئی حق حاصل ہے
میں جو زندہ ہوں تو بے وجہ نہیں زندہ ہوں
اب یہ محسوس ہوا ہے مجھے، اک عمر کے بعد
اجنبی جو نظر آیا تھا، وہی اپنا ہے
نہ کوئی خون کا رشتہ، نہ کوئی عمر کی قید
وہ جو بے لوث ہے پانی میں کنول کی صورت
جو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتا
جو محبت کے سوا کچھ بھی نہیں لے سکتا

Posted on May 13, 2011