پہلو میں میرے دیکھ وہی دل ہے آج بھی

پہلو میں میرے دیکھ وہی دل ہے آج بھی

پہلو میں میرے دیکھ وہی دل ہے آج بھی

روشن اسی چراغ سے محفل ہے آج بھی

اب بھی ہے کہکشاں تیرے پرتو سے راہ شوق

پر نور شام جادواں منزل ہے آج بھی

اب بھی حیات شوق کی کشتی ہے تیز رو

ہر موج ایک امید کا ساحل ہے آج بھی

اب بھی ہے ایک کیف امید کرم کے ساتھ

ایک لطف انتظار میں شامل ہے آج بھی

اب بھی ہے مجھ کو عشق کی حکمت پے اعتماد

دل کو امید حل مسائل ہے آج بھی

اب بھی ہے ہر نگاہ تیری روح آرزو

تُو جان شوق بن کے مقابل ہے آج بھی

وہ دل کے مجھ کو ناز رہا جس پے مدتوں

اے دوست ! تیرے ناز کے قابل ہے آج بھی . . . . . ! ! ! !

Posted on Feb 16, 2011