پھر آج کوئی غزل اس کے نام نا ہو جائے

پھر آج کوئی غزل اس کے نام نا ہو جائے
آج کہیں لکھتے لکھتے شام نا ہو جائے

کر رہے ہیں انتظار اس کے اظہار محبت کا
اسی انتظار میں کہیں عمر تمام نا ہو جائے

نہیں لیتے ہیں اسکا نام سر عام اس در سے
کہیں نام اسکا بدنام نا ہو جائے

مانگتے ہیں دعا جب وہ یاد آتے ہیں
کے جدائی میرے پیار کا انجام نا ہو جائے

سوچتے ہیں اکثر ڈرتے ہیں تنہائی میں
اسکے دل میں کسی اور کا مقام نا ہو جائے

Posted on Feb 16, 2011