ساون آیا تم نہیں آئے

ساون آیا تم نہیں آئے
رہ گئے ہم تو آس لگائے

پچھلی بہاروں میں
تم سے ملے تھے
جن پیڑوں کے نیچے
ہاتھ رکھے خود بکھرائے
گم سم انکھیاں مٹے

ان پیڑوں پر
جھک آئے ہیں
پھر پت جھڑ کے سائے
ساون آیا تم نہیں آئے

تھیں یہی وادیاں
تھے یہی پربت
تھا یہی پیار کا موسم

شاخوں میں تھے
پھول سہانے
پھولوں پر تھی شبنم
ان کو تو ہم بھول چکے ہیں
تم کو بھول نا پائے

ساون آیا تم نہیں آئے
رہ گئے ہم تو آس لگائے . . . !

Posted on Apr 23, 2012