شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی

شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی
کیوں ورنہ انتظار بھی ہے اضطرار بھی

دھیان آ گیا ہے مرگ دل نامراد کا
ملنے کو مل گیا ہے سکون بھی قرار بھی

اب ڈھونڈنے چلے ہو مسافر کو دوستو
حد نگاہ تک نا رہا جب غبار بھی

ہر آستان پہ ناسیاہ فارسا ہیں آج وہ
جو کل نا کر سکے تھے تیرا انتظار بھی

اک راہ رک گئی تو ٹھٹھک کیوں گئی ’ ادا ’
آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پر بھی

Posted on Feb 16, 2011