ابھی اس طرف نا نگاہ کر

ابھی اس طرف نا نگاہ کر ،
میں غزل کی پلکیں سنور لوں ، ،

میرا لفظ لفظ ہو آئینہ ،
تجھے آئینے میں اُتار لوں ، ،

میں تمام دن کا تھکا ہوا ،
تو تمام شب کا جگا ہوا ، ،

ذرا ٹھہر جا اسی مور پر ،
تیرے ساتھ شام گزار لوں ، ،

اگر آسمان کی نمائش میں ،
مجھے بھی اِذْن قیام ہو ، ،

تو میں موتیوں کی دکان سے ،
تیری بالیاں ، تیرے ہار لوں ، ،

کئی اجنبی تیری راہ کے ،
میرے پاس سے یوں گزر گئے ، ،

جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ،
تیرا نام لے کر پکار لوں . . . !

Posted on Mar 26, 2012