اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد

اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد!

یہ مشتِ خاک، یہ صرصر، یہ وسعتِ افلاک
کرم ہے یا کہ ستم، تیری لذتِ ایجاد!

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل!
یہی ہے فصلِ بہاری؟ یہی ہے بادِ مراد!

قصور وار، غریب الدیار ہوں، لیکن!
تراخرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد!

مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشتِ سادہ، وہ تیرا جہاں بے بنیاد

خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد

مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

Posted on May 07, 2011