احتساب

سوچ مفلوج ہے حالات کے زندانوں میں
عقل پر تلخ حوادث کے گراں تلے ہیں
آگہی سرد و خاموش
منجمد شعلہ ہوش
ذہن پر بھولے فسانوں کے گھنے جالے ہیں
کوئی آہٹ بھی نہیں دل کے سیاہ خانوں میں
قہقہے وقت کے خوش رنگ شبستانوں میں
کتنی دل دوز و غمیں آہوں کے رکھوالے ہیں
آرزو جام طلب
آبْرُو زہر با لب
کتنے ہی ناگ خزانوں نے یہاں پالے ہیں
کتنے پیکر ہیں جو ڈھل جاتے ہیں ایوانوں میں
زندگی رینگتی ہے موت کے ویرانوں میں
انقلابات نے انداز بدل ڈالے ہیں
رات دن شام و سحر
کس کو جرات ہو مگر
ناگ خود ہی تو خزانوں نے یہاں پالے ہیں
آگ پھولوں نے بکھیری ہے گلستانوں میں

Posted on May 18, 2011