جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لئے ہوئے
ہوں شمع کشتہ، درخور محفل میں نہیں رہا

مرنے کے اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و باز وے قاتل نہیں رہا

بروئے شش جہت در آئینہ باز ہے
یاں امتیاز ناقص وہ کامل نہیں رہا

واہ، کر دیئے ہیں شوق نے بند نقاب حسن
غیراز نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

کو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہو اے کشت وفا مٹ گئی کہ وہاں
حاصل سوائے حسرت نہیں رہا

بیداد عشق سے نہیں ڈرتا، مگر اسد
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

Posted on May 12, 2011